کیا کھانے سے پہلے اور اخیر میں نمکین چیز کھانا سنت ہے؟




جواب: کھانے میں نمکین سے ابتدا و اختتام سنت نہیں، جیساکہ بعض کتابوں (شامی،عالمگیری،اور الدر المنتفی وغیرہ میں کھانے کے منجملہ آداب وسنن) میں لکھا ہوا ہے، اسلئے کہ اس بارے میں جتنی احادیث ہیں وہ سب موضوعہ ہیں، لہذااُس کو سنت قرار دینا تسامح (غلطی) ہے۔ (احسن الفتاوی 9/91)
بہرحال یہ سنت تو دور مستحب بھی نہیں ہے، اسلئے کہ کسی بھی حکم کے اثبات کے لئے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے خواہ مستحب ہی ہو، اور یہاں کوئی معتبر دلیل نہیں ہے، اور مذکورہ بالا احادیث سے کسی بھی حکم کا ثبوت اصولی اعتبار سے درست نہیں!
لہذا ان دلیلوں سے حجت پکڑنا صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ روایات ایسی شدید ضعیف ہیں جس سے استحباب ثابت کرنا اصول کے خلاف ہے، بلکہ اسی وجہ ( روات کے مجہول و وضّاع ہونے کی وجہ ‍) سے کئی لوگوں نے اس سلسلے کی احادیث کو موضوع قرار دیا ہے۔
رہی بات بعض اکابرین کی، کہ انہوں نے اپنی کتب وغیرہ میں اِسے سنت یا مستحب لکھا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ:
اکابر کی تحقیق سر آنکھوں پر، لیکن در حقیقت یہاں تحقیق نہیں ہے، بلکہ ’’عالمگیری‘‘ کے جزئیہ "البدء بالملح والختم بالملح" کی توضیح ہے، حالانکہ دوسرے محقق اکابر نے اس بات کو رد کیا ہے، چنانچہ ملا علی قاری سے لے کر صاحبِ ’’احسن الفتاوی‘‘ تک کتب اٹھا کر دیکھ لیں، ہر ایک میں اسکی نفی ہے۔
دوسری بات: استحباب بھی ایک حکم ہے جس کے ثبوت کے لئے بھی کم از کم ایسی دلیل ہو جس پر زیادہ رد و قدح نہ کیا گیا ہو، اور اس مسئلہ میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے، جو صحیح اور صریح ہو، یا رد و قدح سے خالی ہو! لہذا اسے سنت یا مستحب کہنا محلِّ نظر ہے.

نوٹ: اس سلسلے میں ایک روایت یہ پیش کی جاتی ہے کہ اس میں (نمکین سے ابتداء کرنے میں) ستر بیماریوں سے شفاء ہے؟ جیساکہ شامی میں ہے "ومن السنة البداءة بالملح والختم به، بل فیه شفاء من سبعین داء، ولعق القصعة وكذا الأصابع قبل مسحها بالمندیل . وتمامه فی الدر المنتقى والبزازیة وغیرهم"
جواب: یہ روایت سنداً شدید ضعیف ہے، چنانچہ اس روایت کو ابن الجوزیؒ اور ملا علی قاریؒ نے اپنی موضوعات میں موضوع شمار کیا ہے، (ملخصا محمود الفتاوی5/636) ۔

فائدہ: ایسے ہی بعض لوگ کہتے ہیں کہ کھانے کے بعد میٹھی چیز کھانا سنت ہے!
تو اس کا جواب یہ ہے کہ: کھانے کے بعد میٹھے کا حدیث سے کوئی ثبوت نہیں، البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو میٹھا پسند تھا اس لئے اس نیت سے کھائے تو موجبِ اجر ہے، (البتہ کھانے کے بعد کی قید کے ساتھ سنت سمجھنا درست نہیں) (المسائل المہمہ 4/229 ۔ امداد الفتاوی 4/111) ۔

خلاصہ یہ ہے کہ :حدیث سے میٹھے یا نمکین کو ثابت سمجھنا درست نہیں، طبی لحاظ سے مفید سمجھے تو عمل کر سکتے ہیں،چنانچہ ’’فتاوی محمودیہ‘‘ میں مفتی صاحب نے کہا ہے کہ: نمک یا میٹھے سے ابتداء کرنے سے مراد یہ ہے کہ ہر آدمی اپنی محبوب اور پسندیدہ چیز سے کھانے کی ابتداء کرے، تاکہ کھانا رغبت اور اشتھاء کے ساتھ کھاسکے ۔
اور یہی بات زیادہ مناسب اور احوط ہے، جیساکہ فقہی سمینار ۲۴ صفر ۱۴۳۷ھ /مطابق ۷ دسمبر ۲۰۱۵ بروز دو شنبہ کی مجلس میں یہی فیصلہ کیا گیا ۔

                                              واللہ اعلم بالصواب
                                                مفتی معمور بدر صاحب
                                                   مظاہری قاسمی اعظم پوری

Comments

Popular posts from this blog

جزی اللہ محمدا عنا ما ھو اھلہ کی فضیلت

جنت میں جانے والے جانور

اللہ تعالی کی رضا اور ناراضگی کی نشانیاں